77

قومی زبان کا نفاذ فرض بھی ہے اور قرض بھی اعجاز علی چشتی (رکن مجلس یوٹیوب تحریک نفاذ اردو پاکستان ) کا بہترین کالم پڑھنے کے لیے لنک پر کلک کریں

قومی زبان کا نفاذ فرض بھی ہے اور قرض بھی
اعجاز علی چشتی (رکن مجلس یوٹیوب تحریک نفاذ اردو پاکستان )

ہم سب جانتے ہیں کہ دستور کے مطابق اردو پاکستان کی سرکاری زبان ہے اور 13 اگست 1988 سے اسے نافذ ہونا چاہیے تھا۔ اسی طرح سپریم کورٹ نے بھی فوری طور پر اسے نافذ کرنے کا حکم دے رکھا ہے۔ لیکن ایک مفاد پرست طبقہ اپنے مذموم مقاصد کی خاطر انگریزی تسلط کو روز بروز مستحکم کررہا ہے اور ہماری قومی زبان اردو کے نفاذ میں حائل ہے۔
13اگست 1988 کے بعد جتنے لوگ صدر یا وزیراعظم رہے ہیں انہوں نے اردو نافذ نہیں ہونے دی۔ جن بینظیر بھٹو، آصف علی زرداری، نواز شریف، جنرل پرویز مشرف ، شوکت عزیز، عمران خان اور شہباز شریف شامل ہیں۔ جن کی پشت پر سول و ملٹری بیوروکریسی اور اعلیٰ عدلیہ کے جج بھی شامل ہیں۔
پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں (سوائے جماعت اسلامی) ، وکلاء اور ان کی تنظیمیں، علماء اور ان کی جماعتیں، ادیب و شعراء اور ادبی تنظیمیں یہاں تک کہ مزدور تنظیمیں اس دستور شکنی پر خاموش تائید و حمایت دے رہے ہیں۔
حد تو یہ ہے کہ اردو میڈیا سے منسلک مالکان، کالم نگار (سوائے تین چار), خبر نگار، مدیران سب کے سب حکمرانوں کی دستور شکنی اور قومی زبان اردو کی دشمنی پر خاموش تائید کررہے ہیں۔
قومی زبان اردو کا نفاذ پاکستانی قوم کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے ، جس پر خاموش رہنا مجرمانہ خاموشی کے مترادف ہے۔ جو ہم وطن اس کی اہمیت سے آگاہ ہیں، ان پر لازم ہے کہ وہ دیگر ہم وطنوں کو اس کی اہمیت سے آگاہ کریں تاکہ سب مل کر قومی زبان اردو کو نافذ کروا سکیں۔
ہمارے پاس زبانی اظہارِ کے علاؤہ سوشل میڈیا کا فورم ہی بچتا ہے کہ جس کے ذریعے عوام کی بیدار کیا جائے۔ اس لیے آپ سے گزارش ہے کہ سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے روزانہ تحریک نفاذ اردو پاکستان کے پیغام کو پھیلانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں