اسلامی جمہوریہ پاکستان۔
اور
مملکت پاکستان کی سیاسی قیادتیں۔
۔………………………………………….
یہ بات 70سال سے سنتے آ رہے ہیں پاکستان اسلام کے نام پر قائم ہوا۔ اوریہ ایک حقیقت ہے مملکت پاکستان کو ہر دور میں نصیب ہونے والی سیاسی قیادت نےاس کی نظریاتی وحدت کو ہمیشہ کاری ضرب لگائی۔ آزادی 1947ء سے لے کر آج تک قائداعظم کے بعد غیر سنجیدہ۔ خود غرض۔ اقربا پرور۔ ناشائستہ سیاسی قیادتوں کی نادانیوں کی وجہ سے متعدد بار حکومتیں کھلونوں کی طرح ٹوٹیں۔ کبھی بھی ہماری سیاسی قیادتوں نے ملک وقوم کے مفادات کو اول ترجع نہیں دی ۔ ان سیاسی لیڈروں نے ہمیشہ کے اقتدار اپنے خاندانی اور موروثی سیاسی مفاد و اقتدارکے لیے عوام کو گمراہ کیا اقتدار میں آکر اندرون و بیرون ملک جائیدادیں بنائیں اپنی اولادوں کو سیٹ کیا ملکی اور عوامی مسائل کو کبھی اپنے ذاتی مفاد پر ترجع نہیں دی ۔ انہیں دولت کمانے دھڑے بندیوں محلاتی سازشیوں کے علاوہ کوئی کام ملک و قوم کے لیئے نظر نہیں آیا ۔ ان لوگوں نے ملکی سلا متی اور عدالتی اداروں کی متعدد بار تضحیک کی۔ ان سیاسی لیڈروں کا نہ کوئی سیاسی نظریہ ان میں نہ کوئی فلسفیانہ سوچ و فکر ہے اور نہ ہی سوائے اقتدار کے ان کا کوئی منشور ہے۔ان کے محلات میں نہ کوئی علمی لائبرئیری نہ کوئی ڈھب کی کتاب بلکہ قیمتی تحائف ہوتے ہیں ان کی شخصی کمزوریوں کی وجہ سے سول ملٹری تعلقات ہمیشہ نازک موڑ پر رہے۔ ان کا مزاج عجب ہے کمزور ہوئے تو پیر پکڑ لئے طاقت میں ہوئے تو گریبان پکڑتے ہیں۔ ان کے اندر نہ فلاح کا جذبہ نظر آتا ہے انہوں نے شعوری طور پر غلطیاں کیں نہ کہ لا شعوری طور پر۔ I.M.F کی رپورٹ کے مطابق 2017ء تک ملک 30 کھرب ڈالر کا مقروض ان سیاسی قیادتوں کی غلط معاشی پالیسیوں کی وجہ سے ہوا۔ جس کی بنیادی وجہ کرپشن ہے ان سیاسی قیادتوں کی وجہ سے پی۔ آئی۔ اے تباہ۔ ریلوے تباہ۔ سٹیل ملز تباہ ہوکر موت کے آغوش میں جا رہئے ہیں۔ بھوک کا شکار ممالک میں پاکستان کا شمار ہوتا ہے۔ ملک معاشی طور بد حال ہے ۔ملکی جمہوریت بادشاہت کا مسخ شدہ چہرہ ہے سیاسی پارٹیوں کی قیادت خاندا نی وراثت میں آتی ہے ۔ ملکی پارلیمنٹ سرمایہ داروں اور جاگیرداروں یا ان کے طفیلی مذہبی اجارہ داروں کے لیے مخالفیں کے خلاف دل کی بھڑاس نکالنے کا ایک پلیٹ فارم ہے گویامذہبی اجارہ اداروں۔ سرمایہ داروں ۔ سیاسی بادشاہوں کے باہمی گٹھ جوڑ نے قوم میں نہ صرف ناخواندگی۔ تعصب اور احساس محرومی کو جنم دیا ہے بلکہ پورے معاشرے کو معاشی اور اخلاقی پستی میں دھکیل دیا ہے۔ ان کے باہمی اتحاد کی وجہ سے اب تک لاکھوں افراد نسلی۔ لسانی۔ نظریاتی و علاقائی۔ مذہبی و غیر مذہبی۔ قبائل اور قوم پرستانہ تصادم کے نتیجہ میں موت کے آغوش میں جا چکے ہیں ۔
دوستو! ان حقائق کوکسی انداز میں بھی چھپایا نہیں جا سکتا۔ کوئی اس امر پر اگر خا موش ہے تو اس کی معاشی کمزوری ہو سکتی ہے یا کوئی سیاسی و معاشرتی مجبوری وگرنہ ہر ملک ہر قوم کا فرد دنیا بھر میں سب کچھ دیکھتا ہے۔ آج کی اس جدید دنیا میں بھی اگر کوئی سیاسی حکمران اپنے عوام کو بنیادی سہو لتوں سے محروم رکھتا ہے کیا ان سے خدا پرستی اور وطن دوستی کی توقع رکھی جا سکتی ہے۔
انسانی تکریم اور ضرورتوں کے حوالے سے اگر مذہب و اخلاق میں کالے گورے میں کوئی امتیاز نہیں تو پھر پاکستان کے 90 فیصد عوام غلامی۔ جہالت۔ احساس محرومی۔ آمریت اور حیوانیت کا شکار کیوں ہیں ۔ کیا یہ ہمارے سیاست دان حکمرانوں اسمبلیوں اور سینٹ میں بڑھکیں مارنے والوں کی نظر میں اچھوت۔ پلید۔ اور ثانوی درجہ کی مخلوق ہے ۔ ہمارے سیاست دانوں کوتو نہ دنیاوی تغیروتبدل کا احساس ہے نہ وقت کی پہچان یہ لوگ ایوانوں میں فضول خرافات جھاڑتے ہیں انہیں عوام اور ملک مسائل کا نہ ادراک ہے نہ فکرو سوچ کوئی بھٹو خاندان کا مرثیہ گو اور قصیدہ خواں کوئی شریف خاندان کا ۔ ان کا کوئی نصب العین نہیں اور نہ کوئی زندگی کی تر جیحات نہ ان میں کوئی لیڈر شپ ہے نہ قوت فیصلہ اس لئے یہ لوگ دوسروں کی رہنمائی نہیں کر سکتے اسی لئےاسلامی جمہوریہ پاکستان 70 سال سے بحرا نوں کا شکار ہے ۔
جب تک عوام خود اپنے آپ پر حکومت اور اپنی راہنمائی کرنے کا طریقہ نہ سیکھ لیں جس کی پہچان جنون۔ علم۔ جہاد۔ محنت۔ نطق۔ عقل۔ شجاعت۔ نظم و ضبط۔ دلیری ہے جو یہ پیرو ملا۔ اور پاکستانی سرمایہ دار۔ جاگیردار اور موروثی سیاست دان لوگوں میں پیدا ہی نہیں ہونے دیتے۔
شکریہ ۔ خدا حافظ
414