چوہدری محمد مختار جٹ ایڈووکیٹ کا پاکستان کے قرضوں اور امداد سابق حکمرانوں اور موجودہ حکومت کی مشکلات بارےانتہائی معلوماتی مضمون۔…….. ۔
پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعدپاکستان کے پہلے وزیر اعظم محترم لیاقت علیخان نے مئی 1950ء میں امریکہ کا دورہ کیا پروٹوکول سے ہٹ کر امریکی صدر نے ان کا استقبال کیا اس طرح پاکستان امریکہ کا حلیف بن گیا 1954ء میں پاکستان نے امریکہ کے ساتھ دفاعی معائدہ کیا اور سیٹو کا رکن بن گیا اور پھر معائدہ بغداد (سینٹو) کا رکن بھی بن گیا تو پھر 1954ء میں امریکہ نے پاکستان کوڈیڑھ ارب ڈالر کی فوجی اورتین ارب ڈالر کی اقتصادی امداد دی واضع رہے یہ قرض نہیں تھا امداد تھی پاکستان کو روس کے خلاف اپنا آلہ کار بنانے کی جس میں امریکہ کامیاب ہوا اس طرح پاکستان کو امریکہ میں بین الااقوامی مالیاتی اداروں سے 1951ء سے 1955ء تک 12 کروڑ 10 لاکھ ڈالر قرض ملا۔ اگلے پانچ سالوں میں یہ قرض 1960ء تک تین گنا ہو گیا۔ دسمبر 1971ء پیپلز پارٹی کی حکومت سے قبل پاکستان پر بیرونی قرض صرف 3 ارب ڈالر تھا۔پیپلز پارٹی کے دور 1977ء تک یہ قرض 6 ارب 30 کروڑ ڈالر ہو گیا۔ پھر فوجی راج آیا ڈاکٹر محبوب الحق ۔ سرتاج عزیز اور غلام اسحاق خان جیسے ماہر معیشت کی پالیسیوں کی وجہ سے یہ قرضہ 1990ء میں 21 ارب 90 کروڑ ڈالر ہو گیا۔ پھر نواز شریف کی حکومت کے بعد 2000ء یہ قرض 35 ارب 60 کروڑ ڈالر ہو گیا۔ پھر مشرف راج آیا سٹی بنک کے ملازم شوکت عزیز وارد ہوئے افغانستان میں امریکی جارحیت کی غیر مشروط حمائیت اوردلالی کی وجہ پاکستانی قرضوں میں ماضی کی طرح اضافہ نہ ہوامگر پھر بھی مارچ 2007ء تک پاکستان کے ذمے بیرونی قرضہ 38 ارب 86 کروڑ 40 لاکھ ڈالر ہو گیا۔ اس دور میں اگر فوجی حکمرانوں میں کوئی ہمت ہوتی تو پاکستان کے ذمے قرض معاف کروائے جا سکتے تھے لیکن بزدل حکمرانوں نے ان حالات سے فائدہ نہ اٹھایا پاکستان کو دہشت گردی کی جنگ میں دھکیل کر تقریبا 100 ارب ڈالر کا نقصان اٹھایا۔ پاکستان نے اپنے ہوائی اڈوں۔ بندرگاہ۔ چھاونیوں۔ سڑکوں۔ فضاوں کو استعمال کرنے کا کوئی معاوضہ نہ لیا۔ اس وقت کے سیاست دان جو جنرل پرویز مشرف کی حکومت کا حصہ تھے ان میں وزیر اعظم ظفراللہ جمالی۔ گجرات کے چوہدری شجاعت حسین۔ پرویز الہی۔ اور شوکت عزیز کے علاوہ اس وقت کے ممبران پارلیمنٹ اور اعلی عدلیہ نے پرویز مشرف کی وطن دشمن پالیسیوں کی مکمل سپورٹ کی اور ملکی مفادات کے خلاف کام کیا ۔ 2008ء میں زرداری دور آیا پاکستان کے ذمہ قرض تقریبا 39 ارب ڈالر سے یہ قرض جولائی 2013ء میں 61 ارب 90 کروڑ ڈالر ہو گیا پھر شریفوں کا دور آیا پاکستان کے ذمے قرضہ 2014ء جولائی تک 63 ارب 40 لاکھ ڈالر ہو گیا جولائی 2015 میں یہ قرضہ 65 ارب 10لاکھ ڈالر ہو گیا۔ 2016 دسمبر تک یہ قرضہ 72 ارب 98 کروڑ ڈالر ہو گیا نواز شریف دور کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار صاحب کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان قرضوں کی دلدل میں تیز رفتاری سے دھنستا گیا ایک سال کے عرصہ میں انہوں نے 7 ارب 90 کروڑ ڈالر قرضہ لیا۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے نواز شریف کے حالیہ گزرے ہوئے دور حکومت میں 30 ارب ڈالر یعنی پاکستانی 3کھرب 10 ارب روپے پاکستانی بنکوں سے بھی قرض لیا گیا چین کا قرض اس کے علاوہ ہے جو 46 ارب ڈالر ہے جو پاکستان کو ادا کرنا ہو گا۔ نواز شریف کی حکومت کے بعد موجودہ تحریک انصاف کی حکومت کو 8 ارب 76 کروڑ ڈالر کی قسط آئی ۔ایم۔ ایف۔ ورلڈ بنک۔ ایشین ڈویلپمنٹ بنک کو ادا کرنا پڑتی ہے جو ہو رہی ہے۔ 16 کروڑ سعودی ریال اسلامی ترقیاتی بنک۔ 1ارب 60 کروڑ ڈالر چین۔ 192 ارب ین جاپان۔ 60کروڑ 25 لاکھ یورو کی قسط پیرس کلب کو ادا کرنا ہوگی یہ وہ قرض ہیں نہ کبھی پارلیمنٹ میں ان کے بابت معاہدوں کو پیش کیا گیا اور نہ میڈیا کو ان معاہدوں کی کبھی تفصیل بتائی گئی قوم کو حکمران مقروض کر گئے یہ قرض کیسے ادا کیا جائے باشعور عوام پریشان ہیں موجودہ حکومت کے لئے ملک چلانے کے ساتھ ساتھ ان قرضوں کی اقساط ادا کرنا بہت بڑا ٹسٹ ہے یا تو ان قرضوں کی اقساط ادا کرنے کے لئے بین الاقوامی اداروں سے مزید قرض لیا جائے ان قرضوں کو سخت شرائط پر ری شیڈول کرایا جائے ان شرطوں کو پورا کرنے کے لئے پاکستانی روپے کی قدر کم کی جائے۔ عوام پر نئے ٹیکس لگائے جائیں کھاد ۔بیج۔ بجلی مہنگی کی جائے جس سے تمام اشیاء ضروری کی قیمتیں بڑھیں گی ۔ ذرائع نقل و حمل مہنگے ہونگے۔ ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں اضافہ ہو گا۔ پاکستان نئے دشوار گزار مسائل سے دوچار ہو گا۔ ملک میں بے روز گاری بڑھے گی۔ جرائم میں اضافہ ہو گا ملک کی ترقی کا پہیہ پہلے سے سست ہو گا۔ بجلی کی قیمت بڑھنے سے پیداواری لاگت میں اضافہ ہو گا برآمدات میں کمی آئے گی ملیں بند ہونگی مزدور بے روز گار ہو گا لوگ بھوکے ہونگےتو پھر سوال پیدا ہو گا ان حالات کا ذمہ دار کون ہے اب تحریک انصاف کی حکومت کو ان حالات کا سامنا ہے عوام کو مطمعن رکھنا ہے بین الاقوامی مالیاتی اداروں کو مطمعن رکھنا قرض دینے والے بنکوں قرض دینے والی ملکوں کو مطمعن کرنا ھے عوام کی گزر اوقات کو بھی آسان بنانا ہے جو موجودہ حکومت کچھ نہ کچھ کرنے میں لگی ہوئی ہے ۔ اب سوال یہ ہے ملک میں قرضوں کی صورت میں سرمایہ آیا گیا کدھر عوام کیوں بد حال ہیں سابقہ حکمرانوں کی جائدادیں بیرون ملک کیوں ھیں ان حکمرانوں کے کاروبار بیرون ملک کیوں ھیں ان حکمرانوں کی اولادیں بیرون ملک عیش و عشرت سے زندگی کیوں بسر کر رہی ھیں۔ اندرون ملک سابق حکمران خاندانوں کی جائیدادوں میں لاکھوں گنا اضافہ کیسے ھو گیا۔ یہی مسئلہ قابل غور و فکر اور غیور نسلوں کا خون گرماتا ھے ہم میں سے بہت سے مفاد پرست اور احساس وضمیر سے عاری لوگ وڈیروں اور لٹیروں کے محلات سے چپکے لوگ کسی امیرزادہ کی ہنسی تھپکی۔ اورچھچھکار کے بدلے اپنی عزت نفس کی پرواہ نہ کرنے والے نام نہاد سیاسی کار کن ۔فیس بکیے مبصرین ۔ بلا دانش دانشور لفافیئے صحافی ان حالات میں بھی یہ نعرہ لگائیں حکومت ناکام جا رھی ھے ۔ میاں آوئے ای آوئے۔ زرداری زندہ باد ۔ زندہ ھے بھٹو زندہ ھے۔ بلاول وزیر اعظم۔ مریم وزیر اعظم عوام کے اس نا سمجھ ٹولہ پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے اور ان کے شر سے اللہ سے پناہ ھی مانگی جا سکتی ھے ۔
اگر پاکستان کے غریب مزدور کسان با شعور سفید پوش لوئر میڈل کلاس نے اس مضمون میں بیان کئے گئے حقائق کا جائزہ لے کر اس ملک کے بلاولوں۔ آسفاوں ۔ بختاورں۔ مریم نوازوں۔ شریف نوازوں۔ شہبازوں اور ان کی آل اولادوں اور اس قسم کی دیگر مقتدر نسلوں کو زندہ باد ۔ آوے ای آوے۔ جیوے ای جیوے ۔ زندہ ھے زندہ کہنے پر اور اپنی نو نہال ۔ حسین جمیل۔ ذہین و فطین۔ محنتی اور جفاکش مگر پریشان حال اولادوں کو مذکورہ بالا خوشامدی نعرہ بازی پر لگا دیا تو پھر ھم سب کا خدا ھی حا فظ ھے اور مملکت خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان کا بھی اللہ حا فظ
واسلا م ۔ شکریہ
365