ٹھیک بات ہے۔ انسان احسن تقویم پر خلق کیا گیا ہے کوئی اس بات سے انکاری نہیں ہے۔ انسان کو اچھائی او برائی دونوں سے آگاہی دے دی گئی ہے اور انسان کے آگے حق اور باطل کو روز روشن کی طرح عیاں کر دیا گیا ہے۔ انسان کو اعلی اوصاف سے نوازا گیا ہے کہ وہ دنیا میں پیش آنے والے حوادث کا ادراک کرے۔ لیکن ان تمام صفات و خصائل کے باوجود انسان کی ایک پیدائشی اور فطری خامی ہے کہ وہ اپنے خاندان، معاشرے اور ماحول میں اپنے جیسے انسانوں اور ان کے بنائے ہوئے اداروں اور گروہوں کے زبانی، کلامی اور عملی اقدام و اظہار سے بہت جلد متاثر ہو جاتا ہے۔
تاریخ انسانیت کے صفحات کو اکھاڑ پچھاڑ کر دیکھا جائے تو ہزاروں ایسے واقعات و قصائص ملیں گے جن میں مخلتف اقوام نے پروپیگنڈہ وار کے ذریعے مختلف قسم کی ہاری ہوئی جنگیں جیتی بھی ہیں اور بہت سے واقعات آپ کو ایسے بھی ملیں گے جس میں اقوام نے جیتی ہوئی جنگیں صرف اور صرف پروپیگنڈہ وار کی وجہ سے ہاری ہیں۔ مثلا تاریخ سے لگاؤ رکھنے والوں کے لیے جنگ صفین میں پروپیگنڈہ وار کو سمجھنا مشکل نہیں ہے۔ جس میں جنگ اپنے آخری مراحل میں تھی کی عمر ابن عاص کی طرف قرآن کو نیزوں پر بلند کر دیا گیا اور سادہ لوح مجاہدین اسلام اس پروپیگنڈہ میں آگئے۔
عصر حاضر میں دنیا اس وقت ایک بہت بڑی وبائی مرض کا شکار ہے جو کہ خود ایک پیدا شدہ بحران ہے جس کے بارے میں بہت سے ممالک سے شواہد بھی آچکے ہیں کہ یہ وائرس دراصل ان شیاطین اور انسانیت دشمن طاقتوں کی طرف سے پھیلایا گیا ہے جو اس کائنات کے سکون کو تباہ و برباد کرنا چاہتی ہیں۔ راقم کی مراد بجا طور پر امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک ہیں کہ جو ہمیشہ سے انسانیت کی تذلیل کرتے آئے ہیں کبھی ہیروشیما پر ایٹم بم برسا کر تو کبھی فلسطین،عراق،شام،افغانستان، ایران، لیبیا، لبنان، یمن اور سرزمین پاکستان پر جنگیں مسلط کر کے اپنے مزموم عزائم کو پایہ تکمیل تک پہنچاتے ہیں۔ حالیہ کرونا بحران بھی حیاتیاتی جنگ کا حصہ ہے کیونکہ امریکی تھنک ٹینکس اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ مسلمان ممالک کے ساتھ دو بدو جنگ میں ان کا نقصان ہے۔ لہذا اب نئے طریقوں سے جنگوں کا آغاز کیاگیا ہے۔
لیکن ان سب حالات میں ایک چیز جس کی طرف ہم سب بہت کم متوجہ ہیں وہ پروپیگنڈہ وار ہے۔ جس کے ذریعے دشمن اپنے عزائم کو چھپانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ قارئین دنیا میں اس وقت امریکی عزائم کو اگر کسی سے خطرہ ہے تو وہ ایسے ممالک ہیں جو کہ کھل عام امریکہ کے خلاف نبرد آزما ہیں جیسا کہ ایران، عراق،شام اور لبنان۔ شہید سلیمانی کی شہادت کے بعد دنیا کے تبدیل ہوتے ہوئے حالات امریکہ کے لیے بہت بڑے خطرہ کا پیش خیمہ تھے کیونکہ ان حالات میں دو قسم کے کام سر انجام پا رہے تھے۔ ایک تو ایران کے ساتھ دنیا کے ہمدردی بڑھ رہی تھی اور دوسرا ایران اور سعودی عرب کے درمیان مصالحت کا کردار ادار کرنے کے لیے عراق اپنی بھرپور کوششیں کر رہا تھا لہذا اس سارے عمل کو سبو تاج کرنے کے لیے ایران کو تنہا کرنے کی ضرورت تھی۔
کرونا کی وبا کے پھیلتے ہی جن دو ممالک کے لوگ سب سے زیادہ متاثر ہوئے وہ ایران اور چین تھے۔ اور یہی ممالک امریکی عزائم کے لیے خطرہ بھی ہیں۔ لہذا ان دونوں کے خلاف پروپیگنڈہ وار کا استعمال کیا گیا مثلا امریکی صدر نے کرونا وائرس کو چینی وائرس سے تشبیہ دی اور چین کو پوری دنیا کے لیے خطرہ قرار دیا جس کی وجہ چینی معیشت کو کھربوں ڈالر کا نقصان ہوا۔ اس کے بعد ایران چونکہ ایک ثقافتی ملک ہے جہاں پر پوری دنیا سے لوگ سیاحت اور زیارت کی غرض سے آتے ہیں جیسے ہی قم میں پہلا کیس سامنے آیا تو انٹرنیشنل میڈیا کا سارا فوکس ایران پر ہوگیا اور ایرانی عوام اور نظام اسلامی کے خلاف پروپیگنڈہ وار کا آغاز کر دیا گیا۔ اب چونکہ ہمارے وطن عزیز سے ہزاروں لوگ جو زیارت کی غرض سے ایران میں موجود تھے انہیں واپس اپنے ملک میں آنا تھا تو انہوں نے فورا تفتان بارڈر کا رخ کیا کیونکہ ان کے ویزہ کی میعاد ختم ہونے والی تھی۔ اور پھر انسانی فطرت کا تقاضا یہ ہے کہ انسان مشکل میں اپنے عزیز و اقارب کے پاس ہونا چاہتا ہے۔ جب کہ ایرانی صدرحسن روحانی کے بقول ان کی حکومت نے بیرون ملک سے آئے تمام زائرین کے لیے فیلڈ ہسپتال قائم کر دیے تھے تاکہ ان سب کا بروقت علاج ہو سکے لیکن اپنے وطن عزیز آنا چاہتے تھے۔
جیسے ہی یہ لوگ تفتان پہنچے تو پہلے تو پاکستانی حکام نے تین دن تک تفتان بارڈر بند رکھا جس کی وجہ سے لوگ ایرانی امیگریشن آفس میں بیٹھے انتظار کرتے رہے۔ اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ریاست مدینہ میں اپنے ہی ملک باسیوں پر بارڈر بند کیے جاتے ہیں۔ خیر اللہ اللہ کر کے جب بارڈر کھولا گیا تو ہزاروں لوگ وہاں پر موجود تھے جنہیں تفتان بارڈر پر موجود عقوبت خانہ بنام پاکستان ہاؤس میں رکھا گیا۔ اب جو لوگ کبھی تفتان گئے ہیں ان کو اندازہ ہوگا کہ تفتان پر سہولیات کی کیا صورتحال ہوتی ہے۔ خیر ہمیں اس موضوع پر گفتگو نہیں کرنی۔ 14 سے 21دن تک ہزاروں لوگوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح وہاں بغیر سکریننگ اور میڈیکل سہولیات کےقرنطینہ میں رکھا گیا۔ بعدازاں بسوں کے ذریعے آرمی کی سکیورٹی میں ان کو اپنے اپنے صوبوں میں روانہ کر دیا گیا۔ جہاں پر صوبوں نے اپنے اپنے بارڈرز پر ان کے لیےدو بارہ قرنطینہ سنٹر بنا دیے گئے جہاں انہیں پھر سے آئسولیشن میں رکھ دیا گیا۔ ان میں سے سکھر، ڈیرہ غازی خان اور ڈیرہ اسماعیل میں صوبوں کے قائم کردہ قرنطینہ سنٹر تھے۔ جن میں تاحال ایران سے آنے والے لوگوں کو رکھا ہو اہے۔ ان میں بعض کو سکریننگ اور میڈیکل چیک اپ کے بعد مکمل تسلی کےساتھ گھروں کو روانہ کیا گیا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایران سے آنے والے لوگ تو ابھی تک قرنطینہ میں ہیں جن سے کسی کو ملنے تک کی اجازت نہیں ہے پھر پاکستان کے دیگر شہروں میں وائرس کہاں سے پھیلا؟؟
کیا پاکستان میں تفتان کے علاوہ کسی اور ہوائی راستے سے لوگ داخل نہیں ہوئے؟؟
کیا ایئر پورٹ پر ان سب لوگوں کے قرنطینہ سنٹرز قائم کیے گیے؟؟
کیا یورت اور خلیجی ممالک سے آنے والے لوگوں میں سے کسی میں کرونا نہیں تھا؟؟
کیا پاکستان میں پہلی ہلاکت عمرہ سے آئے ہوئے شخص کی نہیں ہوئی؟؟
کیا بہارہ کہو، ڈیرہ غازی خان اور مردان سے تبلیغی جماعت والوں میں کرونا مثبت نہیں آیا؟؟
کیا ڈیرہ غازی خان میں تبلیغی جماعت کے لوگوں نے پولیس پر حملہ نہیں کیا؟؟
کیا نائجیریا سے آئی ہوئی تبلیغی جماعت کی خواتین میں وائرس کی شناخت نہیں ہوئی؟؟
میری تمام پاکستانی قوم سے دست بدستہ گزارش ہے کہ خدارا اس پروپیگنڈہ وار کا حصہ نہ بنیں جو کہ دشمن کا پھیلایا ہوا جال ہے۔ ملت تشیع کے خلاف اس پروپیگنڈہ وار کو بند کیا جائے کیونکہ ابھی تک ایران سے آئے ہوئے لوگوں میں سے کسی ایک کی بھی موت واقع نہیں ہوئی۔ آئیں مشکل کی اس گھڑی میں قوم بن کر ایک دوسرے کا ہاتھ تھامیں اور دشمن کے پھیلائے ہوئے تمام مزموم پروپیگنڈوں کو ناکام کریں۔ اور کرونا وائرس کا شکار لوگوں کا حوصلہ بڑھائیں۔ اللہ پاک ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔
ازقلم : شاہد رضا
352