سلطان نیوز کی جانب سے گڑھ مہاراجہ کی سیاسی شخصیات کے بارے معلومات کا جو سلسلہ شروع کیا گیا ھے آج کی تحریر مہر علی عرفان ولد مہر غلام علی سبانہ سیال کے بارے ھے۔
__________________________________
مہر علی عرفان سبانہ سیال کو خاندانی طور پر ترقی پسندی اورانقلابی فکر کی سیاست ورثہ میں ملی ھے ۔ گو کہ ان کا طرز سیاست اپنے والد محترم جناب مہر غلام علی سبانہ سیال سے کچھ مختلف ھے ۔ مہر غلام علی سبانہ سیال صاحب نے زندگی بھر علاقہ کی سبانہ برادری کو متحد رکھا برادری میں اگر کوئی مخالف بھی ھوا مہر صاحب نے اپنے طرز عمل سے ظاہر نہیں ھونے دیا۔
مہرصاحب نے ہمیشہ سیکولر عوامی سیاست کی کھبی کسی فرقہ واریت کی پرواہ نہ کی نہ اس بنیاد پر سیاست کی ۔
مہر صاحب نے کبھی منفی نعرہ بازی سیاست میں نہ کی نہ کبھی گڑھ موڑ اور گڑھ مہاراجہ میں کبھی نفرت کا رجحان پیدا ہونے دیا ۔
مہر صاحب نے کبھی ڈیرہ پروری کی سیاست نہیں کی تھی وہ دوستو کے دوست اور سیاسی مخالفین کے بارے بھی معقول لب ولہجہ استعمال کرتے تھے 1970ء گڑھ مہاراجہ میں پیپلز پارٹی کے بانیوں میں سے تھے مہر صاحب اور ان کے ساتھیوں کی کاوش کی وجہ سے بھٹو صاحب گڑھ موڑ پر جلسہ کر کے گئے مہر صاحب نے مزدور۔ کسان ۔ ریڑی۔ چھابڑی۔ تھڑہ لگا کر روزی کمانے والوں کا پر چم ہمیشہ بلند رکھا تھانہ تحصیل کے ظلم و جبر سے غریب عوام کو ہمیشہ بچانے کی کوشش کی مہر صاحب نے سیاست میں خرچ کیا ھے کمایا کچھ نہیں رفاہی اور فلاھی منصوبوں کے لیئے ذاتی اراضی سے بھی کچھ دیا ھے مہر صاحب نے 1970ء کے الیکشن میں پیپلز پارٹی کے نعمت اللہ حصاری امیدوار ایم۔ این ۔اے کا بھر پور ساتھ دیا جن کے مد مقابل جمیعت علماء پاکستان کے صاحبزادہ نذیر سلطان صاحب تھے اور آزاد شاہ جینوا گروپ کے خان محمد عارف خان سیال صاحب تھے اس وقت صوبائی سیٹ پر خان نوازش علیخان سیال صاحب نواب آف گڑھ مہاراجہ پیپلز پارٹی کے امیدوار تھے ان کے مد مقابل بھی ان کے بھتیجے خان ذوالفقار خان سیال صاحب آزاد شاہ جینوا گروپ سے تھے مگر مہر صاحب نظریاتی طور پر کسی گدی یا وڈیرہ سے خائف نہ ھوئے پیپلز پارٹی کے غریب امیدوار کا ساتھ دیا جبکہ پیپلز پارٹی کے صوبائی امیدوار خان نوازش علیخان صاحب نے صاحبزادہ نذیر سلطان کی مدد کی اور مدد لی 1977ء کے الیکشن میں صاحبزادہ نذیر سلطان پیپلزپارٹی میں شامل ھوئے مہر صاحب نے ان کا ساتھ دیا 1985ء کے الیکشن میں علاقہ کی معروف علمی ادبی اور انقلابی شخصیت خان صفدر علی خان سیال سے نظریاتی دوستی کی وجہ سے جو کہ صوبائی اسمبلی کے امیدوار تھے خان عارف خان سیال کا ساتھ دیا اس کے بعد ان کی زندگی میں جتنے الیکشن آئے مہر صاحب مرکز میں صاحبزادہ گروپ کے ساتھ رھے اور صاحبزادہ نذیر سلطان صاحب نے بھی اپنے دور اقتدار میں مہر صاحب کے بچوں کو مختلف محکموں میں ملازمتیں دلوا کر خوب نوازا ۔ 1987ء کے بلدیاتی الیکشن میں گڑھ مہاراجہ میں آزاد عوامی گروپ بنا جس کے کنوینر چوہدری محمد مختار جٹ ایڈووکیٹ تھے رانا فقیر حسین خاں اور رانا محمد اسلم صاحب اس عوامی گروپ کے انتہائی فعال ممبر تھے صاحبزادہ نذیر سلطان صاحب کی اس عوامی گروپ کو مکمل سپورٹ حاصل تھی خان ذوالفقار خان صاحب M.P.Aتھے نذیر سلطان صاحب الیکشن ہارے ھوئے تھے گڑھ مہا راجہ کی حلقہ بندی سے عوامی گروپ کے لئے الیکشن لڑنا اور ٹاون کمیٹی کے ھر حلقہ میں اپنے مضبوط امیدوار کھڑے کرنا انتہائی مشکل ھو گیا تھا اس لیئے محلہ جٹاں والہ سے چوھدری محمد مختار جٹ ایڈووکیٹ کو صا حبزادہ نذیر سلطان نے رانا فقیر حسین صاحب کے حق میں الیکشن سے دستبردار کروا یا اور رانا فقیر حسین صاحب کو الیکشن لڑنے کا موقعہ فراہم کیا اسی طرح مہر صاحب اور ملک عبدالرحمان صاحب کو مجبور کر کے گڑھ موڑ سے عوامی گروپ سے الیکشن لڑوایا اس وقت گڑھ مہاراجہ ٹاون کمیٹی کی 12 نشتیں تھیں 6 عوامی گروپ نے جیت لیں بعد میں ایک ممبر منحرف ھو گیا اس طرح مہر صاحب 1987ء میں پہلی بار بلدیاتی الیکشن لڑے اور کونسلر منتخب ھوئے پھر دوسری بار بھی کونسلر بنے مہر صاحب کی وفات کی وفات کےبعد مہر علی عرفان صا حب بلدیاتی سیاست میں آئے ان میں وہ باتیں بلکل نہیں جو ان کے والد محترم میں تھیں ان کی سیاست کسی حد تک مفاد پرستی میں بدل گئی اور یہ برادری کو بھی اپنے ساتھ متحد نہ رکھ سکے سیکولر سیاست کی بجائے ان کی سیاست پر فرقہ پرستی کا رنگ بھی آیا اور گڑھ موڑ اور گڑھ مہاراجہ کے علاقائی منفی نعروں کی چھاپ بھی دکھائی دیتی ھے مہر صاحب اپنے شخصی مفاد کی خاطر کئی بار سیاسی گروپ بھی بدل چکے ھیں گڑھ موڑ کے عوام میں یہ بات بڑے زور وشور سے کہی جاتی ھے کہ مہر علی عرفان صا حب سیاسی طور پر ہمیشہ اپنا ذاتی مالی اور کاروباری مفاد کو مد نظر رکھتے ان کے سیاسی مخالف یہ بھی کہتے ھیں یہ اپنے حلقہ میں صاحبزادہ یا گڑھ مہاراجہ سیال گروپ میں سے کسی ایک گروپ کی مدد کے بغیر کونسلر نہیں بن سکتے مگر ھمارے سروے کے مطابق یہ اپنے حلقہ میں مضبوط ترین امیدوار ھیں کیونکہ اپنے علاقہ میں ترقیاتی سکیموں کے بارے کافی سر گرم ھیں انفرادی طور پران کے حلقہ میں ان سے ذیادہ کوئی دیگر موثر نہیں جب یہ ناظم بنے تھے اس وقت بھی انہوں نے کافی ترقیاتی کام کروائے ھیں کسی حد تک لوگ ان کی کارکردگی سے مطمعن تھے اپنے والد مہر غلام علی سبانہ سیال صاحب کی ایک رمز ان میں اب بھی ھے یہ غریب مزدور کسان کی ترقی کی بات اب بھی کرتے ھیں فیوڈل ازم کے خلاف اب بھی بول لیتے ھیں گڑھ مہا راجہ کے ترقی پسند لوگوں سے اب بھی رابطہ رکھتے ھیں اپنے والد کی طرح نوجوان نسل کو سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ سیاست کے غریب دشمن روائیوں سے کچھ نہ کچھ آگاھی دینے کی کوشش کرتے ھیں عوامی حلقوں میں یہ بات کافی گرم ھے کہ آئیندہ بلدیاتی الیکشن میں ٹاون کمیٹی کی قیادت کے مطمئنی ھیں اب دیکھنا یہ ھے گروپ فیصلہ کے پابند رھیں گے یا سابقہ تاریخ دہراتے ھوئےصاحبزادہ گروپ سے منحرف ھو کر جستجو اقتدار میں کسی اور گلستان سیاست میں چہکنے کی روش اختیار کریں گے ۔
بحر حال مہر علی عرفان صاحب اپنی تعلیم اور سوجھ بوجھ کے مطابق ایک متوازی سیاسی عوامی شخصیت ھیں شکریہ
آئیندہ تحریر گڑھ مہاراجہ کی اھم عوامی شخصیت چوہدری محمد مختار جٹ ایڈووکیٹ کے بارے ھوگی ضرور پڑھئے گا۔
383