الیکشن کمپین کیسے چلائی جائے ؟؟؟
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 8 فروری کو انتخابات کرانے کا اعلان کیا ہے 13 جنوری کو انتخابی نشانات الاٹ کر دیئے جائیں گے مگر انتخابی ضابطہ اخلاق پر مکمل عملدرآمد کا ماحول نظر نہیں آ رہا
کہیں پہ پکڑ دھکڑ ہے تو کہیں پر امیدواروں کو مقدمات کا سامنا ہے کہیں پر پی ٹی آئی تو کہیں پر سابقہ حکومت کی اتحادی جماعتوں کی طرف سے لیول پلیئنگ فیلڈ پر سوالات اٹھائے گئے ہیں
کاغذات نامزدگی کے دوران کسی طرف ,سے منظور منظور کے شادیانے بجائے گئے تو کسی طرف سے مسترد مسترد کی صدائیں بلند ہوئیں جن پر اپیلیں بھ دائر ہو چکیں ،
ایک امیدوار کے ایک حلقے میں کاغذات منظور تو اسی امیدوار کے دوسرے حلقے میں کاغذات مسترد کر دیئے گئے
اس بات کی سمجھ نہیں آئی کہ دوسرے حلقے میں امیدوار کے کاغذات بدل گئے تھے یا جانچ پڑتال کے قانون کا پیمانہ تبدیل ہو گیا
بہر حال قانون سے کوئی شخص بالا تر نہیں ، قانون سب کیلئے برابر ہے اور اس پر عمل کرنا بھی سب پر لازم ہے
صاحبان اقتدار اکثر اداروں کو ذاتی مفادات کے لیے استعمال کرتے آئے ہیں دور اقتدار میں نیلی بتی والے پروٹوکول سکواڈ کے شاہانہ دور بھی گزارنے کو ملتے ہیں
مگر جب دور بدلتے ہیں تو یہ نیلی بتی والے سکواڈ انہی پر ریڈ کرنے کیلئے مامور کر دیئے جاتے ہیں اور شاہی محلوں کے مکینوں کو گھر سے در بدر ہونا پڑتا ہے
کئی صاحبان رائے اسے مکافات عمل کا نام دے رہے ہیں تو کہیں سے سیاسی انتقام کی آوازیں آ رہی ہیں
اگر سیاسی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو الیکشن گزر جانے کے بعد سیاسی مخالفین پر مقدمے بازی کی خبریں بھی پائی جاتی ہیں مگر الیکشن سے پہلے ایف آئی آروں کے سرپرائز پہلی بار سننے کو ملے ہیں
حلقہ این اے 110 پی پی 130 سے ن لیگ کی مقامی قیادت نے ان مقدمات سے لا تعلقی کا اظہار کرتے ہوئے اسے نگران حکومت اور پی ٹی آئی کا معاملہ قرار دیا ہے
جبکہ عوامی حلقوں نے ان مقدمات کی مذمت کی ہے
مگر کوئی طاقت تو ہے جس کے آرڈرز پر مبینہ 2021 میں تھانہ احمدپور سیال میں درج ایف آئی آر میں سابق وفاقی وزیر صاحبزادہ محمد محبوب سلطان اور سابق صوبائی پارلیمانی سیکریٹری رانا شہباز احمد خان کے ناموں کا اندراج کیا گیا جسے شہریوں نے ناپسندیدہ فعل قرار دیا ہے
انتخابات میں مقابلہ کارکردگی سے کیا جاتا ہے اپنے اپنے کارنامے عوام کے سامنے رکھے جاتے ہیں یہی جمہوریت کا حسن ہے
کارکردگی کا سوال ضرور اٹھائیں ، انتخابی مقابلہ کریں
اور
یہ سوال بھی کیا جا سکتا ہے کہ
1970 سے 2018 تک صاحبزادہ گروپ اقتدار میں ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ،
سینیٹر شپ ، ۔۔۔۔۔۔۔۔ ،
ضلعی نظامت ، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ،
وفاقی وزارتوں ، صوبائی عہدوں پر صاحبزادہ گروپ فائز رہا اس دوران انہوں نے اپنے حلقوں کی ترقی اور عوام کی خوشحالی کیلئے کیا کیا اقدامات کیے ؟
یہ ہے انتخابی مقابلے کا طریقہ کار اور الیکشن کےلئے صحت افزاء سیاسی ماحول مگر سیاست میں مقدمے بازی جمہوریت کیلئے زہر قاتل ہے
نہ وزارت خوراک کا کوئی سکینڈل ، نہ وزارت سیفران کی کوئی کرپشن ؟
صرف ایک ریلی میں شرکت کے الزام کا مقدمہ جسے عوام مسترد کر چکی
صاحبزادہ محمد محبوب سلطان سے پی ٹی آئی کو یہی شکوہ رہا ہے کہ وہ انکی ریلیوں میں اکثر غائب ہوتے تھے اور پھر جس ریلی پر جھنگ کی انتظامیہ نے پابندی لگا رکھی ہو اس میں تو وہ کبھی بھی شرکت نہیں کرتے
انتخابی کمپین کے دوران امیدواران حلقے میں عوام کی محرومیوں کو دور کرنے کیلئے،
انکے مسائل حل کرنے کیلئے امیدوں کے چراغ روشن کرتے ہیں ناکہ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھال کر پبلک کو مایوس کرتے ہیں
کامیاب سیاستدان وہی ہوتا ہے جس کا کردار، گفتار، انداز سیاست عوام کے لئے قابل کشش ہو ،
اور وہ انتخابی کمپین میں اپنے جادوئی انداز گفتگو کے سحر سے حلقے کے عوام کو ، ووٹرز کو ، سپورٹرز کو مسخر کرنے کا ہنر جانتا ہو
مگر سوال یہی ہے کہ
الیکشن کمپین کیسے چلائی جائے ؟؟؟
پی ٹی آئی والوں کو نکلنے نہیں دیا جا رہا اور شاید سردی کی وجہ سے پاکستان مسلم لیگ ن والے خود سے نکل نہیں رہے ،
سربراہ جمعیت علماء اسلام مولانا فضل الرحمن نے موسم اور امن و امان کی صورت حال کو الیکشن کیلئے نا موافق قرار دے دیا ہے اور ایک ٹی وی رپورٹ کے مطابق چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو زرداری بھی کہہ چکے کہ ان حالات میں الیکشن کمپین نہیں چلائی جا سکتی –
# تحریر: حبیب منظر نمائندہ روزنامہ جنگ جیو نیوز سابق صدر تحصیل پریس کلب 03027691808الیکشن کمپین کیسے چلائی جائے ؟؟؟
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 8 فروری کو انتخابات کرانے کا اعلان کیا ہے 13 جنوری کو انتخابی نشانات الاٹ کر دیئے جائیں گے مگر انتخابی ضابطہ اخلاق پر مکمل عملدرآمد کا ماحول نظر نہیں آ رہا
کہیں پہ پکڑ دھکڑ ہے تو کہیں پر امیدواروں کو مقدمات کا سامنا ہے کہیں پر پی ٹی آئی تو کہیں پر سابقہ حکومت کی اتحادی جماعتوں کی طرف سے لیول پلیئنگ فیلڈ پر سوالات اٹھائے گئے ہیں
کاغذات نامزدگی کے دوران کسی طرف ,سے منظور منظور کے شادیانے بجائے گئے تو کسی طرف سے مسترد مسترد کی صدائیں بلند ہوئیں جن پر اپیلیں بھ دائر ہو چکیں ،
ایک امیدوار کے ایک حلقے میں کاغذات منظور تو اسی امیدوار کے دوسرے حلقے میں کاغذات مسترد کر دیئے گئے
اس بات کی سمجھ نہیں آئی کہ دوسرے حلقے میں امیدوار کے کاغذات بدل گئے تھے یا جانچ پڑتال کے قانون کا پیمانہ تبدیل ہو گیا
بہر حال قانون سے کوئی شخص بالا تر نہیں ، قانون سب کیلئے برابر ہے اور اس پر عمل کرنا بھی سب پر لازم ہے
صاحبان اقتدار اکثر اداروں کو ذاتی مفادات کے لیے استعمال کرتے آئے ہیں دور اقتدار میں نیلی بتی والے پروٹوکول سکواڈ کے شاہانہ دور بھی گزارنے کو ملتے ہیں
مگر جب دور بدلتے ہیں تو یہ نیلی بتی والے سکواڈ انہی پر ریڈ کرنے کیلئے مامور کر دیئے جاتے ہیں اور شاہی محلوں کے مکینوں کو گھر سے در بدر ہونا پڑتا ہے
کئی صاحبان رائے اسے مکافات عمل کا نام دے رہے ہیں تو کہیں سے سیاسی انتقام کی آوازیں آ رہی ہیں
اگر سیاسی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو الیکشن گزر جانے کے بعد سیاسی مخالفین پر مقدمے بازی کی خبریں بھی پائی جاتی ہیں مگر الیکشن سے پہلے ایف آئی آروں کے سرپرائز پہلی بار سننے کو ملے ہیں
حلقہ این اے 110 پی پی 130 سے ن لیگ کی مقامی قیادت نے ان مقدمات سے لا تعلقی کا اظہار کرتے ہوئے اسے نگران حکومت اور پی ٹی آئی کا معاملہ قرار دیا ہے
جبکہ عوامی حلقوں نے ان مقدمات کی مذمت کی ہے
مگر کوئی طاقت تو ہے جس کے آرڈرز پر مبینہ 2021 میں تھانہ احمدپور سیال میں درج ایف آئی آر میں سابق وفاقی وزیر صاحبزادہ محمد محبوب سلطان اور سابق صوبائی پارلیمانی سیکریٹری رانا شہباز احمد خان کے ناموں کا اندراج کیا گیا جسے شہریوں نے ناپسندیدہ فعل قرار دیا ہے
انتخابات میں مقابلہ کارکردگی سے کیا جاتا ہے اپنے اپنے کارنامے عوام کے سامنے رکھے جاتے ہیں یہی جمہوریت کا حسن ہے
کارکردگی کا سوال ضرور اٹھائیں ، انتخابی مقابلہ کریں
اور
یہ سوال بھی کیا جا سکتا ہے کہ
1970 سے 2018 تک صاحبزادہ گروپ اقتدار میں ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ،
سینیٹر شپ ، ۔۔۔۔۔۔۔۔ ،
ضلعی نظامت ، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ،
وفاقی وزارتوں ، صوبائی عہدوں پر صاحبزادہ گروپ فائز رہا اس دوران انہوں نے اپنے حلقوں کی ترقی اور عوام کی خوشحالی کیلئے کیا کیا اقدامات کیے ؟
یہ ہے انتخابی مقابلے کا طریقہ کار اور الیکشن کےلئے صحت افزاء سیاسی ماحول مگر سیاست میں مقدمے بازی جمہوریت کیلئے زہر قاتل ہے
نہ وزارت خوراک کا کوئی سکینڈل ، نہ وزارت سیفران کی کوئی کرپشن ؟
صرف ایک ریلی میں شرکت کے الزام کا مقدمہ جسے عوام مسترد کر چکی
صاحبزادہ محمد محبوب سلطان سے پی ٹی آئی کو یہی شکوہ رہا ہے کہ وہ انکی ریلیوں میں اکثر غائب ہوتے تھے اور پھر جس ریلی پر جھنگ کی انتظامیہ نے پابندی لگا رکھی ہو اس میں تو وہ کبھی بھی شرکت نہیں کرتے
انتخابی کمپین کے دوران امیدواران حلقے میں عوام کی محرومیوں کو دور کرنے کیلئے،
انکے مسائل حل کرنے کیلئے امیدوں کے چراغ روشن کرتے ہیں ناکہ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھال کر پبلک کو مایوس کرتے ہیں
کامیاب سیاستدان وہی ہوتا ہے جس کا کردار، گفتار، انداز سیاست عوام کے لئے قابل کشش ہو ،
اور وہ انتخابی کمپین میں اپنے جادوئی انداز گفتگو کے سحر سے حلقے کے عوام کو ، ووٹرز کو ، سپورٹرز کو مسخر کرنے کا ہنر جانتا ہو
مگر سوال یہی ہے کہ
الیکشن کمپین کیسے چلائی جائے ؟؟؟
پی ٹی آئی والوں کو نکلنے نہیں دیا جا رہا اور شاید سردی کی وجہ سے پاکستان مسلم لیگ ن والے خود سے نکل نہیں رہے ،
سربراہ جمعیت علماء اسلام مولانا فضل الرحمن نے موسم اور امن و امان کی صورت حال کو الیکشن کیلئے نا موافق قرار دے دیا ہے اور ایک ٹی وی رپورٹ کے مطابق چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو زرداری بھی کہہ چکے کہ ان حالات میں الیکشن کمپین نہیں چلائی جا سکتی –
# تحریر: حبیب منظر