301

وباء سے زیادہ اہل وطن کی بے حسی موذی ہے” سنا تھا کہ پچھلے وقتوں میں جب قوموں پر کوئی آفت یا آزمائش آتی تھی تو صاحب ثروت اور معززین اپنے علاقے لوگوں کی خاموشی سے مدد کردیا کرتے تھے، تاجر اپنی تجارت کا

“سامان یا تو سستا کردیتے تھے اور کئی بار تو مفت ہی دے دیا کرتے تھے، اور خیرات کرنے والے ایسے خیرات کیا کرتے تھے کہ کسی کی عزت نفس مجروح نہ ہو..
اور اب ملاحظہ فرمائیں پاکستانی قوم..
تاجروں نے مال ذخیرہ کر لیا ہے،. دوائیاں پہلے سے مہنگی کر دی گئیں ہیں، 5 والا ماسک 50 میں بھی دستیاب نہیں ہے، ڈیٹول، سینیٹایزرز، ٹشو پیپرز اور ٹشوز تو جیسے غائب ہی ہو گئے ہیں، اور سب سے بڑھ کر خود ساختہ مہنگائی کا طوفان برپاء کر دیا گیا ہے،
حکومت کس کس محاز پر لڑے
ان تمام ذخیرہ اندوزوں اور گراں فروشوں سے یہ پوچھنا ہے کہ کیا وہ اپنی زندگی کے بارے میں یقین سے بتا سکتے ہیں کہ کیا ہزاروں سال جئیں گے وہ،
اور لوگوں کی مدد کی آڑ میں خود نمائی کرنے والوں سے کہنا تھا کہ بھائی لوگوں کی عزت نفس کیوں مجروح کر رہے ہیں، ایک ماسک اور ایک سینیٹائزر دے کر دو دو سو سیلفیاں لینے کا کیا مطلب ہے،
آٹے کے تھیلے کے ساتھ تصویر کی کیا ضرورت ہے، ایک بات یاد رکھیں کہ یہ وباء تو موذی ہے ہی مگر خدارا کچھ قومی غیرت کا مظاہرہ کریں، یہ وقت خودنمائی کا نہیں بلکہ ایک دوسرے کی مدد اور ساتھ دینےکا وقت ہے،
حکومت ، انتظامیہ، پولیس، آرمی، ریسکیو 1122، رینجرز، ڈاکٹرز، نرسز اور پیرامیڈکس، اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر ہماری ڈھال بن کر کھڑے ہیں پروردگارِ عالم ان سب کو سلامتی عطاء فرمائے اور انکی بھرپور حفاظت فرماۓ ، اس موقع پر آپ سب بھی بحیثیت ذمہ دار انسان کے اپنا فرض نبھائیں… خودغرضی ترک کریں اور اپنی اپنی بساط میں جو بھی کر سکیں سسکتی انسانیت کی بھلائی کے لیے کیجئے پروردگارِ عالم آپ کو بہترین صلہ عطاء فرمائے گا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں