آہ – ایس ایم ظفر صاحب بھی چل بسے!
تحریر : فا طمہ قمر پاکستان قومی زبان تحریک
بزرگ سیاستدان ‘ معروف قانون دان ‘ دانشور” سابق وفاقی وزیر ‘ سینیٹر ‘ پاکستان سے محبت کرنے والے ‘ پاکستان قومی زبان تحریک کے مخلص رہنما و سرپرست محترم ایس ایم ظفر صاحب بھی رخصت ہوئے! ایس ایم ظفر انتہائی عظیم شخصیت ‘ اعلی کردار کے مالک’ درویش صفت ‘ منکسر المزاج انسان تھے ‘
انہوں نے نفاذ اردو کے حوالے سے ہماری کوششوں کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کی۔ وہ ہمدررد شوری کے سپیکر تھے جنہیں حکیم سعید مرحوم نے ہمدررد خوری کا پہلا سپیکر مقرر کیا’ وہ باقاعدگی سے شوری کے اجلاس کی صدارت کرتے رہے اور ہمیں فخر ہے کہ انہوں نے ہمیں نفاذ اردو مشن کی وجہ سے خود ہی شوری کا رکنیت ‘ ہمدررد شوری کے اجلاس میں دی۔ اور اس کے کچھ عرصے بعد انہوں نے شوری کی سپیکر شپ سے استعفیٰ دے دیا’
ایس ایم ظفر صاحب کو جب ہم نے پہلی مرتبہ نفاذ اردو کے لئے کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی تو اس وقت وہ جہاز میں سوار ہونے والے تھے انہوں نے اس وقت تو معذرت کرلی لیکن آئندہ کی تقریب کی شرکت کی دعوت قبول کرلی۔ یوم قائد اعظم کی تقریب کی تاریخ انہوں نے خود منتخب کی ۔کہ وہ اس تاریخ کو قائد اعظم اور قومی زبان پر خطاب کریں گے۔ ہم نے انہیں یوم دفاع پر بھی شرکت کی دعوت دی جہاں انہوں نے نفاذ اردو اور یوم دفاع کو آپس میں ایسے مربوط کیا کہ سننے والے عیش عیش کر اٹھے۔ انہوں نے اس بھرے مجمع میں ہماری کوششوں کو بے حد سراہا ‘
ایس ایم ظفر صاحب نفاذ اردو مشن میں ہماری ہر طرح سے رہنمائی فرماتے ہمارا بھرپور ساتھ دیتے ‘ وہ انسانی حقوق کی تنظیم کے بانی بھی تھے ایک مرتبہ ان کی میزبانی میں ایک تقریب “عوام کے بنیادی حقوق” کے حوالے سے ہورہی تھی ۔ جس میں ایک صاحب نے انگریزی میں تقریر کی
ہم نے عین موقع پر اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی۔ عوام کے بنیادی حقوق کی بات عوام کی زبان میں کی جائے عوام کی زبان اردو ‘ پنجابی ہے ‘ ایس ایم ظفر صاحب ہماری بات سن کر بہت خوش ہوئے انہوں نے بطور شاباش ہمارے سر پر دست شفقت رکھا’ ہمیں اپنے دفتر بعد ازاں رہائش گاہ پر بھی مدعو کیا’ انہوں نے مجھے کہا کہ آپ آئیں گے تو ہم نفاذ اردو کی پیش رفت کے حوالے سے بات چیت کریں گے۔ ہم ان کی رہائش گاہ پر بھی ان سے ملیں۔ انہوں نے ہمیں بتایا کہ انہوں نے سینٹ میں بھی نفاذ اردو کے بارے میں تقریر کی تھی ‘ انہوں نے وہ تقریر بھی ہمیں بھیجی ۔ ایک مرتبہ ان کے دفتر واقع صدیق ٹریڈ سنٹر میں ملاقات ہوئی۔ باتیں کرتے ہوئے وقت کا پتا ہی نہیں چلا کہ دوپہر کے کھانے کا وقت ہوگیا ‘ ان کا کھانا گھر سے آیا تھا’ انہوں نے ہمیں بصد اصرار اپنے ساتھ پرہیزی کھانے میں شریک کرلیا’کہ یہ مہمان نوازی کے اصول کے خلاف ہے کہ میزبان تو کھانا کھائے’ اور مہمان بھوکا رہے ‘
وہ اتنے عظیم انسان تھے’ ان کی عظمت کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا ‘ ہماری ایک کانفرنس تھی میں نے ان کو ہمدرد شوریٰ کے اجلاس میں دعوت نامہ پکڑایا ‘ تو انہوں نے دعوت نامہ بغیر دیکھے’ بغیر پڑھے مجھے واپس تھمادیا، ” فا طمہ تم مجھے بلارہی ہو ‘ میں بغیر دعوت نامے کے ہی آجاؤں گا ‘ تمہاری تقریب میں آنے کے لئے مجھے کسی دوست نامے کی ضرورت نہیں” آج جس کو چار لوگ جاننے لگے ‘ یا تھوڑی سی دولت آ جائے تو وہ اپنی اوقات ہی بھول جاتا ہے’ پروٹوکول وی آئی پی کے چکر میں پڑجاتا’ جب تک دعوت ناموں پر ان کا نام نہ ہو وہ دعوت قبول نہیں کرتے۔۔ انسانی قدروں کے اس قحط سالی میں ایس ایم ظفر صاحب کا دم غنیمت تھا’
ہم نفاذ اردو سے متعلق ان کو باقاعدگی سے ایس ایم ایس بھیجتے وہ ہمارے ہر پیغام کا جواب دیتے ‘ نفاذ اردو مشن سے ان۔ کی وابستگی کا عملی ثبوت یہ تھا کہ انہوں نے اردو ٹائپنگ سیکھی اور ہمیں اردو ہی میں جواب دیتے ‘
انسانی حقوق کی سالانہ تقریب میں
انہوں نے سامعین میں ہمیں دیکھ لیا’ جب انہوں نے ہمیں وہاں دیکھا ‘ تو
اپنے خطبہ صدارت میں نفاذ اردو پر بات کی ‘ انسانی حقوق کی اس تقریب میں نفاذ اردو سے متعلق ہماری کوششوں کی نہ صرف حوصلہ افزائی کی بلکہ انسانی حقوق کی اس تقریب کے چالیس سال سے دعوت نامے انگریزی میں چھپ رہے تھے ہماری درخواست پر ایس ایم ظفر صاحب نے یہ دعوت نامے اردو میں شائع کرنے شروع کردئیے!
مجھے فخر ہے کہ ایس ایم ظفر صاحب نے ابھی پچھلے ماہ ہم سے رابطہ کیا کہ وہ اپنی نئی کتاب بھیجنا چاہتے ہیں ہم نے ان سے کہا ہم خود آپ کی قدم بوسی کے لئے حاضر ہوجاتے ہیں ‘ لیکن ! افسوس ہم ان سے ملاقات کے لئے نہ جاسکے ‘ اللہ تعالیٰ اس عظیم ہستی پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے آمین
ہم نے ایس ایم ظفر صاحب سے درخواست کی تھی کہ آپ اپنے صاحب زادے ‘ معروف قانون دان بیرسٹر علی ظفر سے کہیں کے وہ نفاذ اردو فیصلے پر عمل درآمد کے لئے قانونی چارہ جوئی کرے’ ایس ایم ظفر صاحب نے بتایا کہ آج کل علی ظفر بہت مصروف ہیں’ فراغت میں ہم ان سے بات کروں گا’ ان کی زندگی میں تو ہمیں علی ظفر سے نفاذ اردو فیصلے پر عمل درآمد کی درخواست دینے سے متعلق ملاقات نہ ہوسکی , لیکن اب جب کہ ایس ایم ظفر صاحب دنیا سے چلے گئے ہیں تو یہ ان کا فرض ہے کہ اپنے والد کی جلائی ہوئی شمع کو روشن رکھے’ جن کاموں کو ایس ایم ایس ظفر صاحب ترجیحی بنیادوں پر کرتے تھے ‘ ان کو جاری رکھیں ‘ ان میں اسی طرح شمولیت کریں جیسے مرحوم کرتے تھے’ نفاذ اردو ایس ایم ظفر کا ایک عظیم مشن تھا’ ان کے چھوٹے صاحب زادے عاصم ظفر ‘ اپنے والد مرحوم کی اس وابستگی سے بخوبی واقف ہے’ ان کی پیاری بیٹی روشان ظفر کو بھی نفاذ اردو مشن میں ہمارا بھرپور ساتھ دینا چاہیے ۔۔۔